اپنی نا کردہ گناہی کی سزا ہو جیسے
ہم سے اس شہر میں ہر ایک خفا ہو جیسے
سوچتے چہروں پہ جلتے ہوئے آثار حیات
یک بہ یک وقت کا عرفان ہوا ہو جیسے
یہ دھندلکے یہ در و بام کا گمبھیر سکوت
چاندنی رات میں مہتاب لٹا ہو جیسے
تجھ سے ملنے کی تمنا تری قربت کا خیال
ریگ زاروں میں کوئی پھول کھلا ہو جیسے
وہی خوبی وہی اخلاص و مروت کے نشاں
حیدرآباد کہ اک شہر وفا ہو جیسے
غزل
اپنی نا کردہ گناہی کی سزا ہو جیسے
وکیل اختر