اپنی نا کردہ گناہی کا صلہ بھی رکھ لے
دل کے خانے میں ذرا خوف خدا بھی رکھ لے
تجھ کو لے جائے گی سناٹے میں اک روز حیات
اپنے کانوں کے لیے سنگ صدا بھی رکھ لے
بجھ نہ جائے کہیں احساس کے شعلوں کا مزاج
منجمد وقت ہے تھوڑی سی ہوا بھی رکھ لے
فاصلہ اور بڑھا دے گی انا کی دہلیز
درمیاں زینۂ اخلاص وفا بھی رکھ لے
زندگی دشت طلسمات کی جانب ہے رواں
کچھ تو ہم راہ بزرگوں کی دعا بھی رکھ لے
روز کا ملنا گراں بار تعلق نہ بنے
بے سبب اس سے کبھی خود کو جدا بھی رکھ لے

غزل
اپنی نا کردہ گناہی کا صلہ بھی رکھ لے
خالد رحیم