اپنی مجبوری بتاتا رہا رو کر مجھ کو
وہ ملا بھی تو کسی اور کا ہو کر مجھ کو
میں خدا تو نہیں جو اس کو دکھائی نہ دیا
ڈھونڈھتا میرا پجاری کبھی کھو کر مجھ کو
پا لیا جس نے تہہ آب بھی اپنا ساحل
مطمئن تھا مرا طوفان ڈبو کر مجھ کو
ریگ ساحل پہ لکھی وقت کی تحریر ہوں میں
موج آئے تو چلی جائے گی دھو کر مجھ کو
نیند ہی جیسے کوئی کنج اماں ہے اب تو
چین ملتا ہے بہت دیر سے سو کر مجھ کو
فصل گل ہو تو نکالے مجھے اس برزخ سے
بھول جائے نہ تہ سنگ وہ بو کر مجھ کو
غزل
اپنی مجبوری بتاتا رہا رو کر مجھ کو
افتخار نسیم