اپنی خاطر ستم ایجاد بھی ہم کرتے ہیں
اور پھر نالہ و فریاد بھی ہم کرتے ہیں
ایک دنیا مری آباد ہے جن سے وہی خواب
کبھی پسپا کبھی برباد بھی ہم کرتے ہیں
خانۂ جسم میں ہنگامہ مچا رکھا ہے
لے مری جاں تجھے آزاد بھی ہم کرتے ہیں
اپنے احباب پہ کرتے ہیں دل و جان نثار
اور اکثر انہیں نا شاد بھی ہم کرتے ہیں
رنج الفت کے سوا اے دل نادان بتا
تھا کوئی رنج جسے یاد بھی ہم کرتے ہیں
اور بھی لوگ ہیں اس کار زیاں میں ہمراہ
سو ان اشعار کو ارشاد بھی ہم کرتے ہیں
غزل
اپنی خاطر ستم ایجاد بھی ہم کرتے ہیں
مہتاب حیدر نقوی