EN हिंदी
اپنی جاں بازی کا جس دم امتحاں ہو جائے گا | شیح شیری
apni jaan-bazi ka jis dam imtihan ho jaega

غزل

اپنی جاں بازی کا جس دم امتحاں ہو جائے گا

امداد امام اثرؔ

;

اپنی جاں بازی کا جس دم امتحاں ہو جائے گا
خنجر سفاک پر جوہر عیاں ہو جائے گا

آہ سوزاں کا اگر اونچا دھواں ہو جائے گا
آسماں اک اور زیر آسماں ہو جائے گا

کچھ سمجھ کر اس مۂ خوبی سے کی تھی دوستی
یہ نہ سمجھے تھے کہ دشمن آسماں ہو جائے گا

لے خبر بیمار غم کی ورنہ اے رشک مسیح
تیری فرقت میں فراق جسم و جاں ہو جائے گا

خاک کر دے گا مجھے آخر سیہ چشموں کا عشق
جسم خاکی گرد پائے آہواں ہو جائے گا

جب ادا سے وہ کرے گا قتل مجھ کو اے اثرؔ
کشتۂ شمشیر حیرت اک جہاں ہو جائے گا