اپنی ہی آواز کو بے شک کان میں رکھنا
لیکن شہر کی خاموشی بھی دھیان میں رکھنا
میرے جھوٹ کو کھولو بھی اور تولو بھی تم
لیکن اپنے سچ کو بھی میزان میں رکھنا
کل تاریخ یقیناً خود کو دہرائے گی
آج کے اک اک منظر کو پہچان میں رکھنا
بزم میں یاروں کی شمشیر لہو میں تر ہے
رزم میں لیکن تلوار کو میان میں رکھنا
آج تو اے دل ترک تعلق پر تم خوش ہو
کل کے پچھتاوے کو بھی امکان میں رکھنا
اس دریا سے آگے ایک سمندر بھی ہے
اور وہ بے ساحل ہے یہ بھی دھیان میں رکھنا
اس موسم میں گل دانوں کی رسم کہاں ہے
لوگو اب پھولوں کو آتش دان میں رکھنا
غزل
اپنی ہی آواز کو بے شک کان میں رکھنا
احمد فراز