اپنی ہی آوارگی سے ڈر گئے
بس میں بیٹھے اور اپنے گھر گئے
ساری بستی رات بھر سوئی نہیں
آسماں کی سمت کچھ پتھر گئے
سب تماشا ساری دنیا دیکھ لی
اس گلی سے ہو کے اپنے گھر گئے
بیچ میں جب آ گئی دیوار جسم
اپنے سائے سے بھی ہم بچ کر گئے
اور کیا لو گے ہمارا امتحاں
زندگی دی تھی سو وہ بھی کر گئے
آپ نے رکھا مری پلکوں پہ ہاتھ
میرا سینہ موتیوں سے بھر گئے
کچھ خریدا ہم نے دیکھو کچھ نہیں
ہم بھی اس بازار سے ہو کر گئے
مصحفؔ اس کو بے وفا کہتے ہو تم
اور جو الزام اس کے سر گئے
غزل
اپنی ہی آوارگی سے ڈر گئے
مصحف اقبال توصیفی