EN हिंदी
اپنی ہستی مٹا کے کیا ہوگا | شیح شیری
apni hasti miTa ke kya hoga

غزل

اپنی ہستی مٹا کے کیا ہوگا

مناکشی جی جی ویشا

;

اپنی ہستی مٹا کے کیا ہوگا
اس کو اپنا بنا کے کیا ہوگا

جن کے چہرہ پہ ہیں کئی چہرہ
ان کو شیشہ دکھا کے کیا ہوگا

اپنے حق کے لیے لڑو کھل کر
یوں ہی آنسو بہا کے کیا ہوگا

جب ہیں پردیس میں سجن تو پھر
ہاتھ مہندی رچا کے کیا ہوگا

بے وفاؤں کو حال دل اپنا
چھوڑیئے بھی سنا کے کیا ہوگا

ان کو خود پر بھی جب یقین نہیں
میرا سر بھی کٹا کے کیا ہوگا

جو کبھی ہم کو پوچھتا ہی نہیں
اس کی محفل میں جا کے کیا ہوگا

کھڑکیاں ذہن کی نہیں کھولیں
صرف شمعیں جلا کے کیا ہوگا

اپنے اعمال پر نظر رکھئے
عیب ان کے گنا کے کیا ہوگا

تو جو دنیا میں بن رہا ہے خدا
سامنے پھر خدا کے کیا ہوگا

یہ خبر آئی تم نہ آؤ گے
پھر تو یہ گھر سجا کے کیا ہوگا

ذکر سے جن کے دھڑکنیں بڑھ جائیں
ان سے نظریں ملا کے کیا ہوگا

جب ترے پیار پہ یقیں ہے ہمیں
پھر ہمیں آزما کے کیا ہوگا

زندگی میں اگر سکون نہ ہو
پھر یہ دولت کما کے کیا ہوگا

جو ہیں بونے رہیں گے بونے ہی
ان کو سر پر بٹھا کے کیا ہوگا