اپنی ہستی کو یہاں بے مدعا سمجھا تھا میں
کیا سمجھنا چاہئے تھا اور کیا سمجھا تھا میں
تم کو اپنے درد دل کی گر دوا سمجھا تھا میں
کیا غلط سمجھا تھا میں بالکل بجا سمجھا تھا میں
کس غلط فہمی میں اپنی عمر ساری کٹ گئی
اک وفا نا آشنا کو با وفا سمجھا تھا میں
کچھ نہ پوچھو راہ الفت میں مری واماندگی
کاکل پیچیدہ کو زنجیر پا سمجھا تھا میں
اس کا ہر ہر گھونٹ تھا زہر ہلاہل سے سوا
زندگی کو چشمۂ آب بقا سمجھا تھا میں
سچ ہے نجمیؔ عشق ازیں بسیار کردست و کند
سر کا دینا ایک آئین وفا سمجھا تھا میں
غزل
اپنی ہستی کو یہاں بے مدعا سمجھا تھا میں
امجد نجمی