EN हिंदी
اپنی غزلوں کو رسالوں سے الگ رکھتا ہوں | شیح شیری
apni ghazlon ko risalon se alag rakhta hun

غزل

اپنی غزلوں کو رسالوں سے الگ رکھتا ہوں

اشفاق رشید منصوری

;

اپنی غزلوں کو رسالوں سے الگ رکھتا ہوں
یعنی یہ پھول کتابوں سے الگ رکھتا ہوں

ہاں بزرگوں سے عقیدت تو مجھے ہے لیکن
مشکلیں اپنی مزاروں سے الگ رکھتا ہوں

منزلیں آ کے میرے پاؤں میں گر جاتی ہیں
حوصلہ جب میں تھکانوں سے الگ رکھتا ہوں

ان کی آمد کا پتہ دیتی ہے خوشبو ان کی
اس گھڑی خود کو جہانوں سے الگ رکھتا ہوں

ہوش والے مجھے اپنوں میں گنا کرتے ہیں
میں کہاں خود کو دیوانوں سے الگ رکھتا ہوں

مجھ کو اچھا نہیں لگتا یہ امیدیں ٹوٹیں
اس لیے تیر کمانوں سے الگ رکھتا ہوں