اپنی غیرت کے علاوہ کہیں دیکھے نہ گئے
خود سے نکلے تھے مگر غیر کے پیچھے نہ گئے
تم کو افسوس تمہیں ٹھیک بنایا نہ گیا
اور ایک ہم کے ابھی چاک پہ رکھے نہ گئے
اک ستم یہ کے ہمیں وصل میں آیا نہ سکوں
اک ستم یہ کے ترے ہجر بھی دیکھے نہ گئے
سنگ اس کے تو محبت میں سلیقے سے کٹی
بعد اس کے بھی بدن سے یہ سلیقے نہ گئے
تیرے آنے پہ کہاں سر پہ اٹھا لیتے تھے گھر
تیرے جانے پہ ترے پیچھے دریچے نہ گئے
اس کی خوشبو کو بھی رخصت نہ کیا جاتا تھا
ہم سے کچھ روز تو کپڑے بھی اتارے نہ گئے
غزل
اپنی غیرت کے علاوہ کہیں دیکھے نہ گئے
نویش ساہو