EN हिंदी
اپنی فطرت یہ نہیں جو سہہ گئی | شیح شیری
apni fitrat ye nahin jo sah gai

غزل

اپنی فطرت یہ نہیں جو سہہ گئی

میگی آسنانی

;

اپنی فطرت یہ نہیں جو سہہ گئی
بات جو کہنی تھی میں وہ کہہ گئی

جسم و جاں سے مٹ گئی ہر آرزو
اک تری امید تہ بہ تہ گئی

کاش آ سکتی ہوا کے ساتھ میں
آ چکی گھر جب یہاں سے وہ گئی

لاکھ لفظوں نے دیا ہو ساتھ پر
آرزو دل کی تھی دل میں رہ گئی

چاند کھڑکی میں نہ آیا آج پھر
آنکھ میں اک جھیل تھی وہ بہہ گئی