اپنی فطرت یہ نہیں جو سہہ گئی
بات جو کہنی تھی میں وہ کہہ گئی
جسم و جاں سے مٹ گئی ہر آرزو
اک تری امید تہ بہ تہ گئی
کاش آ سکتی ہوا کے ساتھ میں
آ چکی گھر جب یہاں سے وہ گئی
لاکھ لفظوں نے دیا ہو ساتھ پر
آرزو دل کی تھی دل میں رہ گئی
چاند کھڑکی میں نہ آیا آج پھر
آنکھ میں اک جھیل تھی وہ بہہ گئی
غزل
اپنی فطرت یہ نہیں جو سہہ گئی
میگی آسنانی