EN हिंदी
اپنی بے چہرگی بھی دیکھا کر | شیح شیری
apni be-chehragi bhi dekha kar

غزل

اپنی بے چہرگی بھی دیکھا کر

نصرت مہدی

;

اپنی بے چہرگی بھی دیکھا کر
روز اک آئنہ نہ توڑا کر

تو جدھر جائے دن نکل آئے
روشنی کا مزاج پیدا کر

یہ صدی بھی کہیں نہ کھو جائے
اپنی مرضی کا کوئی لمحہ کر

دھوپ میں استعارہ بادل کا
تو اگر ہے تو یار سایہ کر

چارہ سازی تو کر رہے ہیں غم
تو مرے آنسوؤں کا سودا کر

جانے کب چھوڑ کر چلی جائے
زندگی کا نہ یوں بھروسہ کر

مسئلے ہیں تو حل بھی نکلیں گے
پاس آ ساتھ بیٹھ چرچا کر