EN हिंदी
اپنی اور کسی سے کس دن راہ و رسم و رفاقت تھی | شیح شیری
apni aur kisi se kis din rah-o-rasm-o-rifaqat thi

غزل

اپنی اور کسی سے کس دن راہ و رسم و رفاقت تھی

بشیر احمد بشیر

;

اپنی اور کسی سے کس دن راہ و رسم و رفاقت تھی
آتی جاتی سانس تھی جس کی ساعت سنگت تھی

تجھ کو خیال نہ آیا ورنہ کس دن اتنے گراں تھے ہم
اک دو حرف مروت سوچو کون سی ایسی قیمت تھی

میں بھی اپنی دھن میں رواں تھا وہ بھی اپنے آپ میں گم
بات کی نوبت کیسے آتی کس کو اتنی فرصت تھی

بیت چکے وہ دن وہ زمانے راحت بھری اذیت کے
یاد کسے اب کون بتائے دوری تھی کہ وہ قربت تھی

کوچہ کوچہ پھیلیں باتیں قطع تعلق خاطر کی
اوروں کا تو ذکر ہی کیا دیوار و در کو حیرت تھی

کتنے ہیں جو اب تک پہنچے اپنی ذات کی منزل تک
حرف و بیاں سے بات ہے باہر ایسی کڑی مسافت تھی

گوشہ گیر فقیر تھے ہم تو مسلک عجز و نیاز بشیرؔ
کیوں بے سود کسی سے الجھتے اپنی کس سے عداوت تھی