اپنی انا کے گنبد بے در میں بند ہے
لیکن بزعم خود وہ فلک تک بلند ہے
ہر منزل ان کے واسطے بس اک زقند ہے
وہ لوگ اپنا عزم ہی جن کا سمند ہے
آتا ہے بار بار فریب خلوص میں
کیا سادہ لوح اپنا دل درد مند ہے
جو التہاب آتش غم سے ہے نالہ کش
وہ دل نہیں چٹختا ہوا اک سپند ہے
شاید مآل خندۂ گل ہے نگاہ میں
لب پر کلی کلی کے عجب زہر خند ہے
ہر ذی حیات اس میں رہے عمر بھر اسیر
تار نفس بھی ایک طرح کی کمند ہے
شامل ہیں تلخیاں بھی حلاوت کے ساتھ ساتھ
یہ زندگی ہے زہر ہلاہل نہ قند ہے
تنویرؔ شہر سنگ میں شیشہ گری کی بات
یاران مہرباں کو بہت ناپسند ہے
غزل
اپنی انا کے گنبد بے در میں بند ہے
سورج تنویر