اپنی آشفتہ طبیعت کا مزہ لیتا ہوں
کش لگاتا ہوں اذیت کا مزہ لیتا ہوں
آنکھ بھی سامنے ہونے پہ یقیں رکھتی ہے
خواب در خواب سہولت کا مزہ لیتا ہوں
تو مرے حصے کی وحشت کا مزہ لیتا ہے
اور میں تیری مشیت کا مزہ لیتا ہوں
چاندنی سرد ہوا پھول پرندے خوشبو
رات بھر تیری ضرورت کا مزہ لیتا ہوں
جھیل میں آگ لگاتا ہوں بڑی فرصت سے
اور پھر بیٹھ کے فرصت کا مزہ لیتا ہوں
خوف کھاتا ہوں کہیں خود سے نہ اکتا جاؤں
وقت کی تازہ روایت کا مزہ لیتا ہوں

غزل
اپنی آشفتہ طبیعت کا مزہ لیتا ہوں
راحل بخاری