EN हिंदी
اپنی آنکھوں سے تو دریا بھی سراب آسا ملے | شیح شیری
apni aankhon se to dariya bhi sarab-asa mile

غزل

اپنی آنکھوں سے تو دریا بھی سراب آسا ملے

صادق نسیم

;

اپنی آنکھوں سے تو دریا بھی سراب آسا ملے
جو بھی نقد جاں لٹانے آئے ہم سے آ ملے

اب وفا کی راہ پر ہر سمت سناٹا ملے
اہل دل کے کارواں کن منزلوں سے جا ملے

لپ پہ گر نغمہ نہیں پلکوں پہ ہی تارا ملے
گل نہیں کھلتے تو کوئی زخم ہی کھلتا ملے

رنگ و بو کے پیرہن میں پھول ہیں یا زخم ہیں
اب نہ وہ کلیاں نہ وہ پتے نہ وہ سایا ملے

امتحاں تھا مصلحت تھی یا مری تقدیر تھی
میں گلستانوں کا طالب تھا مجھے صحرا ملے

عمر بھر ہر ایک سے میں نے چھپائے دل کے داغ
آج یہ حسرت کہ کوئی دیکھنے والا ملے

میں نے جن آنکھوں میں دیکھے تھے سمندر موجزن
ان میں جو بھی ڈوبنے والا ملے پیاسا ملے

ناز اس کا پاسباں انداز اس کا ہم زباں
خلوتوں میں بھی وہ مجھ سے انجمن آرا ملے

آج پھر چھیڑوں گا میں مہتاب کی کرنوں کے تار
کاش امشب تو ملے یا کوئی تجھ جیسا ملے

آنکھ سو رنگوں کی طالب ہوش سو رنگوں کا زخم
دل کو یہ ضد ہے کہ تیری آرزو تنہا ملے

اجنبی راہیں بھی صادقؔ اجنبی راہیں نہ تھیں
جب کسی کے جانے پہچانے نقوش پا ملے