اپنی آنکھوں میں حسیں خواب سجائے رکھو
لاکھ طوفان اٹھیں شمع جلائے رکھو
رات پھر رات ہے اک روز گزر جائے گی
صبح کی آس عزائم میں بسائے رکھو
خواہش دل کی ہوا تیز بہت ہے یارو
آگ پندار کی سینے میں جلائے رکھو
جیتنا چاہو تو ہر مات سہو ہنس ہنس کر
فکر مایوس خیالوں سے بچائے رکھو
یوں ذرا دیر کو دل سے ہی لبھا لیتے ہیں
بات تو جب ہے کہ تا عمر لبھائے رکھو
تم نے سچ بولا ہے مصلوب تمہیں ہونا ہے
اپنے کاندھے پہ صلیب اپنی اٹھائے رکھو
گر یہ چاہو کہ عیاں کرب نہ ہو سینے کا
جان شہزادؔ نگاہوں سے بنائے رکھو
غزل
اپنی آنکھوں میں حسیں خواب سجائے رکھو
فرحت شہزاد