اپنی آنکھوں کو کبھی ٹھیک سے دھویا ہی نہیں
سچ کہوں آج تلک کھل کے میں رویا ہی نہیں
میرے لفظوں سے مرا درد جھلک جاتا ہے
جبکہ اس درد کو آواز میں بویا ہی نہیں
اک دفعہ نیند میں خوابوں کا جنازہ دیکھا
بعد اس کے میں کبھی چین سے سویا ہی نہیں
تنگ گلیوں میں محبت کی بھٹکتے ہیں سب
میں نے کوشش تو کئی بار کی کھویا ہی نہیں
سانس رک جائے تڑپتے ہوئے یادوں میں کہیں
ہجر کا بوجھ کبھی دل پہ یوں ڈھویا ہی نہیں
میں کہانی میں نیا موڑ بھی لا سکتا تھا
میں نے کردار کو آنسو میں بھگویا ہی نہیں
اپنے رشتے کا بھی اب میتؔ بکھرنا طے تھا
ہم نے وشواس کے دھاگے میں پرویا ہی نہیں
غزل
اپنی آنکھوں کو کبھی ٹھیک سے دھویا ہی نہیں
امت شرما میت