اپنی آگ کو زندہ رکھنا کتنا مشکل ہے
پتھر بیچ آئینہ رکھنا کتنا مشکل ہے
کتنا آساں ہے تصویر بنانا اوروں کی
خود کو پس آئینہ رکھنا کتنا مشکل ہے
آنگن سے دہلیز تلک جب رشتہ صدیوں کا
جوگی تجھ کو ٹھہرا رکھنا کتنا مشکل ہے
دوپہروں کے زرد کواڑوں کی زنجیر سے پوچھ
یادوں کو آوارہ رکھنا کتنا مشکل ہے
چلو میں ہو درد کا دریا دھیان میں اس کے ہونٹ
یوں بھی خود کو پیاسا رکھنا کتنا مشکل ہے
تم نے معبد دیکھے ہوں گے یہ آنگن ہے یہاں
ایک چراغ بھی جلتا رکھنا کتنا مشکل ہے
داسی جانے ٹوٹے پھوٹے گیتوں کا یہ دان
سمے کے چرنوں میں لا رکھنا کتنا مشکل ہے

غزل
اپنی آگ کو زندہ رکھنا کتنا مشکل ہے
عشرت آفریں