اپنے زندہ جسم کی گفتار میں کھویا ہوا
خواب کیسے دیکھتا دوپہر کا سویا ہوا
جب سماعت کے کبوتر آسماں میں چھپ گئے
تب وہ میرے پاس آیا شوق سے گویا ہوا
میں تو اس کے لمس کی خواہش میں جی کر مر گیا
اس کا سارا جسم تھا اغیار کا دھویا ہوا
نفرتوں کے بیچ میرے کھیت میں لایا تھا وہ
جس کے باغوں میں لہو کا پیڑ تھا بویا ہوا
اپنے ہونٹوں پر سلگتے پھول آئے ہیں نثارؔ
ہنس کے بولا تھا ہمارے ساتھ کا رویا ہوا

غزل
اپنے زندہ جسم کی گفتار میں کھویا ہوا
رشید نثار