اپنے قاصد کو صبا باندھتے ہیں
سچ ہے شاعر بھی ہوا باندھتے ہیں
پھر سر دست مرا خوں ہوگا
پھر وہ ہاتھوں میں حنا باندھتے ہیں
گٹھری پھولوں کی وہ ہو جاتی ہے
جن میں وہ اپنی قبا باندھتے ہیں
اجی دیکھیں دل عاشق تو نہیں
آپ آنچل میں یہ کیا باندھتے ہیں
اے سخیؔ آج تو کچھ خیر نہیں
وہ کمر ہو کے خفا باندھتے ہیں
غزل
اپنے قاصد کو صبا باندھتے ہیں
سخی لکھنوی