اپنے پس منظر میں منظر بولتے
چیختے دیوار و در گھر بولتے
کچھ تو کھلتا ماجرائے قتل و خوں
چڑھ کے اوج دار پہ سر بولتے
مصلحت تھی کوئی وہ چپ تھے اگر
بولنے والے تو کھل کر بولتے
جو طلسم آذری میں بند تھے
وہ صنم پتھر کے کیوں کر بولتے
بہہ گیا اشکوں کا سیل خوں کہاں
خشک آنکھوں کے سمندر بولتے
ناشناسان سخن کی بزم میں
بولتے تو کیا سخنور بولتے
غزل
اپنے پس منظر میں منظر بولتے
شرر فتح پوری