اپنے ناخن اپنے چہرے پر خراشیں دے گئے
گھر کے دروازے پہ کچھ بھوکے صدائیں دے گئے
جاگتے لوگوں نے شب ماروں کی جب چلنے نہ دی
دن چڑھے وہ روشنی کو بد دعائیں دے گئے
خود ہی اپنے ہاتھ کاٹے اور آنکھیں پھوڑ لیں
دیوتاؤں کو پجاری کیا سزائیں دے گئے
ایک اپنی ذات کے نقطے کو مرکز مان کر
حوصلوں کے زاویے بے حد خلائیں دے گئے
تیز طوفانوں نے ساحل روند ڈالے تھے مگر
جب وہ ٹکرائے پہاڑوں سے گھٹائیں دے گئے
غزل
اپنے ناخن اپنے چہرے پر خراشیں دے گئے
علی اکبر عباس