EN हिंदी
اپنے میں جو اب بھولے سے کبھی راحت کا تقاضا پاتا ہے | شیح شیری
apne mein jo ab bhule se kabhi rahat ka taqaza pata hai

غزل

اپنے میں جو اب بھولے سے کبھی راحت کا تقاضا پاتا ہے

جوشؔ ملیح آبادی

;

اپنے میں جو اب بھولے سے کبھی راحت کا تقاضا پاتا ہے
حالات پہ میرے کر کے نظر دل مجھ سے بہت شرماتا ہے

الجھن میں یکایک ہوتی ہے دم رکتا ہے دل بھر آتا ہے
جب کوئی تسلی دیتا ہے کچھ اور بھی جی گھبراتا ہے

آرام سرکنے والا ہے کس شے پہ یہ غرہ ہے تجھ کو
دنیا یہ بدلنے والی ہے کس چیز پہ تو اتراتا ہے

اعلان سحر کو ہوتا ہے یوں حسن کی شاہنشاہی کا
گردوں پہ سنہرا اک پرچم مشرق کی طرف لہراتا ہے

انداز و ادا سے اے دنیا تو لاکھ سنور کر سامنے آ
یہ جوشؔ فقیر آزاد منش جب دھیان میں تجھ کو لاتا ہے