اپنے میں جو اب بھولے سے کبھی راحت کا تقاضا پاتا ہے
حالات پہ میرے کر کے نظر دل مجھ سے بہت شرماتا ہے
الجھن میں یکایک ہوتی ہے دم رکتا ہے دل بھر آتا ہے
جب کوئی تسلی دیتا ہے کچھ اور بھی جی گھبراتا ہے
آرام سرکنے والا ہے کس شے پہ یہ غرہ ہے تجھ کو
دنیا یہ بدلنے والی ہے کس چیز پہ تو اتراتا ہے
اعلان سحر کو ہوتا ہے یوں حسن کی شاہنشاہی کا
گردوں پہ سنہرا اک پرچم مشرق کی طرف لہراتا ہے
انداز و ادا سے اے دنیا تو لاکھ سنور کر سامنے آ
یہ جوشؔ فقیر آزاد منش جب دھیان میں تجھ کو لاتا ہے
غزل
اپنے میں جو اب بھولے سے کبھی راحت کا تقاضا پاتا ہے
جوشؔ ملیح آبادی