اپنے محور سے جب اتر جاؤں
پھول کی طرح پھر بکھر جاؤں
لوٹ پھر آؤں کیسے محور پر
کوئی بتلاؤ کیا میں کر جاؤں
جانے کیا کہہ رہی ہے دنیا اب
پہلے کہتی تھی کیوں نہ مر جاؤں
مجھ سے ہرگز سے نہ ہو سکے گا کبھی
خود کو اوروں کے جیسا کر جاؤں
ڈوب جاؤں بھنور کے ساتھ کہیں
لہر کے ساتھ پھر ابھر جاؤں
لوٹ آیا تو ہوں میں محور پر
اب یہ خواہش ہے پھر بکھر جاؤں
غزل
اپنے محور سے جب اتر جاؤں
رضی رضی الدین