EN हिंदी
اپنے مرکز پہ نہ پورا ہوا چکر میرا | شیح شیری
apne markaz pe na pura hua chakkar mera

غزل

اپنے مرکز پہ نہ پورا ہوا چکر میرا

پرتو روہیلہ

;

اپنے مرکز پہ نہ پورا ہوا چکر میرا
اجنبی ہاتھ بدلتے رہے محور میرا

میرے قالب کی شناسا نہیں ہیئت میری
اپنے سائے سے بھی بیزار ہے پیکر میرا

میرے سینے پہ تو دشمن کا کوئی زخم نہیں
میرے پہلو میں جو اترا ہے تو خنجر میرا

میں تو اب تک نہیں سیکھا ہوں زمیں پر چلنا
اور خلاؤں میں ہے چھایا ہوا شہ پر میرا

کس کو بخشا ہے خدایا مری قسمت لکھنا
کس کے ہاتھوں میں دیا تو نے مقدر میرا

میں وہ سلطاں ہوں کہ گھٹتی ہے ریاست جتنی
اتنا اتنا ہی بڑھا کرتا ہے لشکر میرا

بند غم ٹوٹنے والا ہے کسی دم پرتوؔ
ایسا لگتا ہے چھلکنے کو ہے ساغر میرا