اپنے منظر سے جدا تھا اک دن
پانی صحرا میں کھڑا تھا اک دن
نیند اڑتے ہوئے قالین پہ تھی
سامنے شہر بلا تھا اک دن
کئی صدیوں میں نہیں آئے گا
اس نے خط میں جو لکھا تھا اک دن
پھر یہی بات نہ میں بھول سکا
میں اسے بھول گیا تھا اک دن
اک مسرت بھرا دن راکھ ہوا
ہاتھ سے پھول گرا تھا اک دن
جھلملاتی ہوئی لو یاد کرو
کوئی اظہار ہوا تھا اک دن
آنکھ پانی میں گھری ہے اب تک
جانے کیا اس پہ بنا تھا اک دن
غزل
اپنے منظر سے جدا تھا اک دن
توقیر عباس