اپنے لیل و نہار کی باتیں
جبر کی اختیار کی باتیں
ہر طرف کب سے ہو رہی ہیں یہاں
گردش روزگار کی باتیں
چار سو یاں پہ موجزن ہیں سراب
زیست کے ریگزار کی باتیں
اک زمانہ گزر گیا یوں ہی
ہم ہیں اور دشت خار کی باتیں
اس کڑی دھوپ میں مذاہب میں
شجر سایہ دار کی باتیں
ہے زمیں سخت آسماں چپ ہے
واہ رے پروردگار کی باتیں
جس کی اک بھی جھلک نہ دیکھی کبھی
کیا ہوں اس پردہ دار کی باتیں
مت کرو بے حصار کی باتیں
مت کرو بے کنار کی باتیں
یہ جو پیاری زمیں ملی ہے تمہیں
بس کرو اس دیار کی باتیں
گر کرو اپنے دل کی بات کرو
ہاں اسی سوگوار کی باتیں

غزل
اپنے لیل و نہار کی باتیں
جعفر عباس