EN हिंदी
اپنے لہو سے نام لکھا غیر کا بھی دیکھ | شیح شیری
apne lahu se nam likha ghair ka bhi dekh

غزل

اپنے لہو سے نام لکھا غیر کا بھی دیکھ

کشور ناہید

;

اپنے لہو سے نام لکھا غیر کا بھی دیکھ
زندہ ہے تو شقاوت دشت بلا بھی دیکھ

آنکھوں کے آئینوں کا تو پانی اتر گیا
اب جسم چوب خشک ہے یہ سانحہ بھی دیکھ

ہوتی ہے زندگی کی حرارت رگوں میں سرد
سوکھے ہوئے بدن پہ یہ چمڑا کسا بھی دیکھ

بیتابیوں کو سینے کے اندر سمیٹ لے
فتنے کو اپنی حد سے مسلسل بڑھا بھی دیکھ

ہر ذرہ عبرتوں کے سمندر کی شکل ہے
صحرا نورد شوق کبھی نقش پا بھی دیکھ

پہچان اپنی ہو تو ملے منزل مراد
ناہیدؔ گاہے گاہے سہی آئنہ بھی دیکھ