اپنے کو آغاز کو انجام میں پایا ہم نے
راز کیا پردۂ ابہام میں پایا ہم نے
کھو گیا تھا جو کبھی بھیڑ میں چہروں کی اسے
اپنی تنہائی کی ہر شام میں پایا ہم نے
ریت بھرتے رہے آنکھوں میں سرابوں کی سدا
عذر جینے کا اسی کام میں پایا ہم نے
کتنے شیریں لب ناگفتہ مگر تھے اس کے
لطف کچھ اور ہی دشنام میں پایا ہم نے
تم تو ڈھونڈا کیے امید و یقیں میں اس کو
دل کی ہر خواہش ناکام میں پایا ہم نے

غزل
اپنے کو آغاز کو انجام میں پایا ہم نے
رفعت شمیم