EN हिंदी
اپنے خوابوں کو اک دن سجاتے ہوئے | شیح شیری
apne KHwabon ko ek din sajate hue

غزل

اپنے خوابوں کو اک دن سجاتے ہوئے

سوپنل تیواری

;

اپنے خوابوں کو اک دن سجاتے ہوئے
گر پڑے چاند تاروں کو لاتے ہوئے

ایک پل پر کھڑا شام کا آفتاب
سب کو تکتا ہے بس آتے جاتے ہوئے

ایک پتھر مرے سر پہ آ کر لگا
کچھ پھلوں کو شجر سے گراتے ہوئے

اے غزل تیری محفل میں پائی جگہ
اک غلیچہ بچھاتے اٹھاتے ہوئے

صبح اک گیت کانوں میں کیا پڑ گیا
کٹ گیا دن وہی گنگناتے ہوئے

ذات سے اپنی آتشؔ تھا غافل بہت
جل گیا خود دیا اک جلاتے ہوئے