اپنے خوابوں کو اک دن سجاتے ہوئے
گر پڑے چاند تاروں کو لاتے ہوئے
ایک پل پر کھڑا شام کا آفتاب
سب کو تکتا ہے بس آتے جاتے ہوئے
ایک پتھر مرے سر پہ آ کر لگا
کچھ پھلوں کو شجر سے گراتے ہوئے
اے غزل تیری محفل میں پائی جگہ
اک غلیچہ بچھاتے اٹھاتے ہوئے
صبح اک گیت کانوں میں کیا پڑ گیا
کٹ گیا دن وہی گنگناتے ہوئے
ذات سے اپنی آتشؔ تھا غافل بہت
جل گیا خود دیا اک جلاتے ہوئے

غزل
اپنے خوابوں کو اک دن سجاتے ہوئے
سوپنل تیواری