اپنے خوں کو خرچ کیا ہے اور کمایا شہر
سارے منظر ٹوٹ گئے اور کام نہ آیا شہر
بے گھر ہونا بے گھر رہنا سب اچھا ٹھہرا
گھر کے اندر گھر نہیں پایا شہر میں پایا شہر
سات سمندر پار بھی آنکھیں میرے ساتھ نہ آئیں
چاروں جانب خواب ہیں میرے اور پرایا شہر
کالے شہر کو روشن رکھا شہر کے لوگوں نے
دیوانوں نے دیے جلائے اور بجھایا شہر
شہر کے اونچے برج بھی میرے قد سے چھوٹے تھے
چھوٹے چھوٹے لوگوں نے کیا خوب بنایا شہر
غزل
اپنے خوں کو خرچ کیا ہے اور کمایا شہر
افتخار قیصر