EN हिंदी
اپنے کہتے ہیں کوئی بات تو دکھ ہوتا ہے | شیح شیری
apne kahte hain koi baat to dukh hota hai

غزل

اپنے کہتے ہیں کوئی بات تو دکھ ہوتا ہے

ہدایت اللہ خان شمسی

;

اپنے کہتے ہیں کوئی بات تو دکھ ہوتا ہے
ہنس کے کرتے ہیں اشارات تو دکھ ہوتا ہے

جن سے منسوب مرے دل کی ہر اک دھڑکن ہو
وہ نہ سمجھیں مرے جذبات تو دکھ ہوتا ہے

مجھ کو محروم کیا تم نے گلا کوئی نہیں
ہوں جو غیروں پہ عنایات تو دکھ ہوتا ہے

جسم و جاں جن کے لیے ہم نے لٹا ڈالے ہوں
چھوڑ جائیں جو وہی ساتھ تو دکھ ہوتا ہے

دور سے روز مسرت کا دکھا کر بادل
غم کی کرتے ہیں جو برسات تو دکھ ہوتا ہے

ہجر میں دن تو کسی طور گزر جاتے ہیں
جلنے لگتی ہے کبھی رات تو دکھ ہوتا ہے

بے سبب چھوڑ دیا اس نے کوئی بات نہیں
لوگ کرتے ہیں سوالات تو دکھ ہوتا ہے

مجھ کو بے لوث محبت کے عوض میں شمسیؔ
ہو عطا زخم کی سوغات تو دکھ ہوتا ہے