اپنے اقرار پہ قائم نہ وہ انکار پہ ہے
کس پری زاد کا سایہ مرے دل دار پہ ہے
فکر تہذیب نہ اصناف ادب سے رغبت
آج کل سب کی نظر درہم و دینار پہ ہے
ایسا لگتا ہے چلی آئے گی پہلو میں ابھی
قد آدم تری تصویر جو دیوار پہ ہے
مجھ کو اس ظلمت شب زار سے نسبت ہی کیا
میری بیدار نظر صبح کے آثار پہ ہے
میں تو بکنے پہ ہوں راضی بسر و چشم سحرؔ
فیصلہ آ کے ٹکا میرے خریدار پہ ہے
غزل
اپنے اقرار پہ قائم نہ وہ انکار پہ ہے
منیرالدین سحر سعیدی