اپنے ہونے کی اہانت نہیں ہم کر سکتے
سو تری یاد سے غفلت نہیں ہم کر سکتے
دل میں لاتے نہیں دشمن سے بھی نفرت کا خیال
اس سے کم کوئی عبادت نہیں ہم کر سکتے
دور رہتے ہیں تکبر کی ہوا سے لیکن
عجز کو غافل غیرت نہیں ہم کر سکتے
مصلحت سحر بہت پھونکتی پھرتی ہے بھرے
کم قد و قامت وحشت نہیں ہم کر سکتے
ڈھیر تفریح تن و جاں کے لگا دو جتنے
ترک اک درد کی دولت نہیں ہم کر سکتے
چھوڑ سکتے ہیں یہ سب صحن و در و بام جہاں
قریۂ خواب سے ہجرت نہیں ہم کر سکتے
تم زمیں پر جو خدا بنتے چلے جاتے ہو
کیا سمجھتے ہو بغاوت نہیں ہم کر سکتے
جس روش بھی ہو رواں غول زمانہ عالؔی
آپ سے کوئی رعایت نہیں ہم کر سکتے
غزل
اپنے ہونے کی اہانت نہیں ہم کر سکتے
جلیل عالیؔ