EN हिंदी
اپنے حصار ذات میں الجھا ہوا ہوں میں | شیح شیری
apne hisar-e-zat mein uljha hua hun main

غزل

اپنے حصار ذات میں الجھا ہوا ہوں میں

جہانگیر نایاب

;

اپنے حصار ذات میں الجھا ہوا ہوں میں
یعنی کہ کائنات میں الجھا ہوا ہوں میں

قابو میں آج دل نہیں کیا ہو گیا مجھے
پھر آج خواہشات میں الجھا ہوا ہوں میں

جیسے کہ ہونے والی ہے انہونی پھر کوئی
ہر پل توہمات میں الجھا ہوا ہوں میں

کچھ اپنا فرض پیار ترا فکر روزگار
کتنے ہی واردات میں الجھا ہوا ہوں میں

فرصت کہاں بناؤں مراسم نئے نئے
پچھلے تعلقات میں الجھا ہوا ہوں میں

سب ہیں اسیر رنج و الم اس جہان میں
تنہا کہاں حیات میں الجھا ہوا ہوں میں

نایابؔ جب نہیں ہے وفاؤں کا اس کو پاس
پھر کیوں تکلفات میں الجھا ہوا ہوں میں