EN हिंदी
اپنے حصار جسم سے باہر بھی دیکھتے | شیح شیری
apne hisar-e-jism se bahar bhi dekhte

غزل

اپنے حصار جسم سے باہر بھی دیکھتے

حامد جیلانی

;

اپنے حصار جسم سے باہر بھی دیکھتے
ہم آئنے کے سامنے ہو کر بھی دیکھتے

عکس فلک سے ٹوٹتا کیسے جمود آپ
پتھر گرا کے جھیل کے اندر بھی دیکھتے

کرتے پلٹ کے اپنے ہی سائے سے گفتگو
صحرا میں زرد‌‌ رنگ سمندر بھی دیکھتے

دنیا کا خوف تھا تو لگاتے نہ آگ ہی
یا موم کا پگھلتا ہوا گھر بھی دیکھتے

حامدؔ تمام عمر یہ خواہش رہی ہمیں
اپنے بدن کی مرگ کا منظر بھی دیکھتے