اپنے حصار جسم سے باہر بھی دیکھتے
ہم آئنے کے سامنے ہو کر بھی دیکھتے
عکس فلک سے ٹوٹتا کیسے جمود آپ
پتھر گرا کے جھیل کے اندر بھی دیکھتے
کرتے پلٹ کے اپنے ہی سائے سے گفتگو
صحرا میں زرد رنگ سمندر بھی دیکھتے
دنیا کا خوف تھا تو لگاتے نہ آگ ہی
یا موم کا پگھلتا ہوا گھر بھی دیکھتے
حامدؔ تمام عمر یہ خواہش رہی ہمیں
اپنے بدن کی مرگ کا منظر بھی دیکھتے

غزل
اپنے حصار جسم سے باہر بھی دیکھتے
حامد جیلانی