EN हिंदी
اپنے ہی شب و روز میں آباد رہا کر | شیح شیری
apne hi shab o rose mein aabaad raha kar

غزل

اپنے ہی شب و روز میں آباد رہا کر

رئیس فروغ

;

اپنے ہی شب و روز میں آباد رہا کر
ہم لوگ برے لوگ ہیں ہم سے نہ ملا کر

شاید کسی آواز کی خوشبو نظر آئے
آنکھیں ہیں تو خوابوں کی تمنا بھی کیا کر

باتوں کے لیے شکوۂ موسم ہی بہت ہے
کچھ اور کسی سے نہ کہا کر نہ سنا کر

سونے دے انہیں رنگ جو سوئے ہیں بدن میں
آوارہ ہواؤں کو نہ محسوس کیا کر

تو صبح بہاراں کا حسیں خواب ہے پھر بھی
آہستہ ذرا اوس کی بوندوں پہ چلا کر