EN हिंदी
اپنے ہی سجدے کا ہے شوق میرے سر نیاز میں | شیح شیری
apne hi sajde ka hai shauq mere sar-e-niyaz mein

غزل

اپنے ہی سجدے کا ہے شوق میرے سر نیاز میں

جگر بریلوی

;

اپنے ہی سجدے کا ہے شوق میرے سر نیاز میں
کعبۂ دل ہے سامنے محو ہوں میں نماز میں

بینا ہے گر تو خاک ڈال دیدۂ امتیاز میں
جام و خم و سبو نہ دیکھ مے کدۂ مجاز میں

کس کا فروغ عکس ہے کون ہے محو ناز میں
کوند رہی ہیں بجلیاں آئینۂ مجاز میں

صبح ازل ہے صبح حسن شام ابد ہے داغ عشق
دل ہے مقام ارتباط سلسلۂ دراز میں

پردۂ اعتبار غیر پیرہن خودی ہے چاک
حسن ازل ہے جلوہ ریز صدمۂ دل گداز میں

عقل و شعور بھی ہیں کیا عقدہ راز دہر ہیں
رہ گئے اور الجھ کے ہم سعیٔ کشود راز میں

یاد کسی کی آ گئی کٹ گئی زندگی کی رات
ورنہ کہاں نمود صبح ایسی شب دراز میں

دفن ہے دل جگہ جگہ کعبہ ہے گام گام پر
سجدہ کہاں کہاں کرے کوئی حریم ناز میں

حسن کے آستانہ پر ناصیہ رکھ کے بھول جا
فکر قبول و رد نہ کر پیش کش نیاز میں

خون کے آنسوؤں سے ہے زینت حسن دل جگرؔ
چاہیے داغ عشق بھی سینۂ پاکباز میں