اپنے ہی سائے میں تھا میں شاید چھپا ہوا
جب خود ہی ہٹ گیا تو کہیں راستہ ملا
جلتے رہے ہیں اپنے ہی دوزخ میں رات دن
ہم سے زیادہ کوئی ہمارا عدو نہ تھا
دیکھا نہ پھر پلٹ کے کسی شہسوار نے
میں ہر صدا کا نقش قدم کھوجتا رہا
دیوار پھاند کر نہ یہاں آئے گا کوئی
رہنے دو زخم دل کا دریچہ کھلا ہوا
نکلا اگر تو ہاتھ نہ آؤں گا پھر کبھی
کب سے ہوں اس بدن کی کماں میں تنا ہوا
بیدار ہیں شعور کی کرنیں کہیں کہیں
ہر ذہن میں ہے وہم کا تاریک راستہ
جوئے نشاط بن کے بہا لے گئی مجھے
آواز تھی کہ ساز جوانی کا عکس تھا
اتنا بھی کون ہوگا ہلاک فریب رنگ
شب اس نے مے جو پی ہے تو مجھ کو نشہ ہوا
فارغؔ ہوائے درد نے لوٹا دیا جسے
آئے گا ایک دن مرا گھر پوچھتا ہوا
غزل
اپنے ہی سائے میں تھا میں شاید چھپا ہوا
فارغ بخاری