اپنے ہی لوگ اپنے نگر اجنبی لگے
واپس گئے تو گھر کی ہر اک شے نئی لگے
خانوں میں بٹ چکی تھی سمندر کی وسعتیں
دریا محبتوں کے سمٹتی ندی لگے
راتوں کی بھینٹ چڑھ گئے وہ چاند جیسے لوگ
تاریکیوں کے دیو جنہیں کاغذی لگے
سونا سمیٹتی تھی جہاں کھیتیوں میں دھوپ
وہ فصل میرے گاؤں کی خاشاک سی لگے
راوی کی شام سندھ کی نکھری ہوئی سحر
کام آ سکے تو ان کو مری زندگی لگے
قیصرؔ دلوں کے فاصلے ایسے نہ تھے کبھی
دو گام طے کروں تو مجھے اک صدی لگے
غزل
اپنے ہی لوگ اپنے نگر اجنبی لگے
قیصر عباس