اپنے ہی گھر کے سامنے ہوں بت بنا ہوا
پردے ہٹے ہوئے ہیں دریچہ کھلا ہوا
یوں ہی ادھر ادھر کی سناتے رہو مجھے
موسم بہت اداس ہے دل ہے دکھا ہوا
آواز دے کے پوچھ لو کیا ہو گیا اسے
وہ شخص جا رہا ہے بہت سوچتا ہوا
کیوں دیکھتا ہے اجنبی نظروں سے وہ مجھے
میں بیٹھے بیٹھے جیسے کوئی دوسرا ہوا
حرف دعا ہے پاس نہ لب پر شکایتیں
جو کچھ ہوا یہاں پہ وہ یا رب برا ہوا
غزل
اپنے ہی گھر کے سامنے ہوں بت بنا ہوا
جاوید ناصر