EN हिंदी
اپنے ہی دم سے ہے چرچا کفر اور اسلام کا | شیح شیری
apne hi dam se hai charcha kufr aur islam ka

غزل

اپنے ہی دم سے ہے چرچا کفر اور اسلام کا

میاں داد خاں سیاح

;

اپنے ہی دم سے ہے چرچا کفر اور اسلام کا
گاہ عابد ہوں خدا کا گہہ پجاری رام کا

لوٹتے ہیں جس کو سن سن کر ہزاروں مرغ دل
ہو رہا ہے ذکر کس کے گیسوؤں کے دام کا

چشم مست یار کا ہم چشم لو پیدا ہوا
دیکھنا اب پوست کھینچا جائے گا بادام کا

سیر کرتا ہے وہ عالم کی مرا پیک نگاہ
لاکھ ہے بے دست و پا لیکن ہے پھر سو کام کا

سر جدا تن سے کیا اک ہاتھ میں جلاد نے
نقد جاں دیجے کیا اس نے یہ کام انعام کا

ہیں شہ ملک جنوں صحرا ہے اپنا تخت گاہ
تن پہ ہر داغ جنوں سکہ ہے اپنے نام کا

جلد نام اپنا بتا دے جیسے بندہ ہوں ترا
واسطہ دیتا ہوں میں اے بت خدا کے نام کا

بت پرستی کی بہت سیاحؔ اب کر یاد حق
شغل مولا میں رہے بندہ وہی ہے کام کا