EN हिंदी
اپنے ہی بھائی کو ہمسایہ بناتے کیوں ہو | شیح شیری
apne hi bhai ko ham-saya banate kyun ho

غزل

اپنے ہی بھائی کو ہمسایہ بناتے کیوں ہو

مشتاق آذر فریدی

;

اپنے ہی بھائی کو ہمسایہ بناتے کیوں ہو
صحن کے بیچ میں دیوار لگاتے کیوں ہو

اک نہ اک دن تو انہیں ٹوٹ بکھرنا ہوگا
خواب پھر خواب ہیں خوابوں کو سجاتے کیوں ہو

کون سنتا ہے یہاں کون ہے سننے والا
یہ سمجھتے ہو تو آواز اٹھاتے کیوں ہو

خود کو بھولے ہوئے گزرے ہیں زمانے یارو
اب مجھے تم مرا احساس دلاتے کیوں ہو

اپنے چہروں پہ جو خود آپ ہی پتھر پھینکیں
ایسے لوگوں کو تم آئینہ دکھاتے کیوں ہو

اپنی تقدیر ہے طوفانوں سے لڑتے رہنا
اہل ساحل کی طرف ہاتھ بڑھاتے کیوں ہو