اپنے ہی آپ میں اسیر ہوں میں
اپنے زنداں میں بے نظیر ہوں میں
ایک شہر خیال ہے میرا
اپنے اس شہر کا امیر ہوں میں
بڑھتا جاتا ہے زندگی کا خط
ایک گھٹتی ہوئی لکیر ہوں میں
کیوں بلاتے ہو اب جہاں والو
ایک گوشہ نشیں فقیر ہوں میں
قرض اس دل پہ الفتوں کے ہیں
دوستوں کا کرم امیر ہوں میں
کھچ کے یوں ہی کمان میں ہوں قید
چھوٹ جاؤں تو ایک تیر ہوں میں
میں نے دیکھی ہے وقت کی کروٹ
مجھ کو دیکھو کہ اک بصیر ہوں میں
غزل
اپنے ہی آپ میں اسیر ہوں میں
سلیمان احمد مانی