اپنے گھر پر بلا لیا اس نے
دیپ سارے بجھا دیا اس نے
چاندنی سی بکھر گئی ہر سو
رخ سے پردہ ہٹا دیا اس نے
کھو گیا اس کی مست آنکھوں میں
ایسے نظریں ملا لیا اس نے
رکھ کے گودی میں سر میرا اپنی
دل کی دھڑکن بڑھا دیا اس نے
کیوں نہ ہو ناز اپنی قسمت پر
مجھ کو اپنا بنا لیا اس نے
وقت رخصت نمی تھی آنکھوں میں
ہاتھ پھر بھی ہلا دیا اس نے
لوٹ کر آؤں گا میں پھر ایک دن
وعدہ مجھ سے کرا لیا اس نے
گم ہے توقیرؔ اس کی یادوں میں
جام الفت پلا دیا اس نے
غزل
اپنے گھر پر بلا لیا اس نے
توقیر احمد