EN हिंदी
اپنے احساس شرر بار سے ڈر لگتا ہے | شیح شیری
apne ehsas-e-sharar-bar se Dar lagta hai

غزل

اپنے احساس شرر بار سے ڈر لگتا ہے

عذرا نقوی

;

اپنے احساس شرر بار سے ڈر لگتا ہے
اپنی ہی جرأت اظہار سے ڈر لگتا ہے

اتنی راہوں کی صعوبت سے گزر جانے کے بعد
اب کسے وادیٔ پر خار سے ڈر لگتا ہے

کتنے ہی کام ادھورے ہیں ابھی دنیا میں
عمر کی تیزئ رفتار سے ڈر لگتا ہے

ساری دنیا میں تباہی کے سوا کیا ہوگا
اب تو ہر صبح کے اخبار سے ڈر لگتا ہے

خود کو منواؤں زمانے سے تو ٹکڑے ہو جاؤں
کچھ روایات کی دیوار سے ڈر لگتا ہے

شوق شوریدہ کے ہاتھوں ہوئے بدنام بہت
اب تو ہر جذبۂ بیدار سے ڈر لگتا ہے

جانتی ہوں کہ چھپے رہتے ہیں فتنے اس میں
آپ کی نرمیٔ گفتار سے ڈر لگتا ہے