EN हिंदी
اپنے دشمن ہزار نکلے ہیں | شیح شیری
apne dushman hazar nikle hain

غزل

اپنے دشمن ہزار نکلے ہیں

محمد یعقوب آسی

;

اپنے دشمن ہزار نکلے ہیں
ہاں مگر با وقار نکلے ہیں

ہم بھی کیا بادہ خوار ہو جائیں
شیخ تو بادہ خوار نکلے ہیں

گھر کا رستہ نہ مل سکا ہم کو
گھر سے جو ایک بار نکلے ہیں

چاند بن چاندنی کہاں ہوگی
گو ستارے ہزار نکلے ہیں

خون دل دے کے جن کو سینچا تھا
نخل سب خار دار نکلے ہیں

بند کوچے کی دوسری جانب
راستے بے شمار نکلے ہیں

بعد اک عمر کی خموشی کے
مصرعے سب زور دار نکلے ہیں

ہم تو سمجھے تھے مست ہیں آسیؔ
آپ بھی ہوشیار نکلے ہیں

کوئی کہتا تھا خوش ہیں آسیؔ جی
وہ مگر دل فگار نکلے ہیں