EN हिंदी
اپنے دل کو سنبھال سکتا ہوں | شیح شیری
apne dil ko sambhaal sakta hun

غزل

اپنے دل کو سنبھال سکتا ہوں

جنید اختر

;

اپنے دل کو سنبھال سکتا ہوں
تجھ کو حیرت میں ڈال سکتا ہوں

وضع داری کا پاس ہے ورنہ
میں بھی کیچڑ اچھال سکتا ہوں

کم نہ سمجھو یہ آتش دل ہے
میں سمندر ابال سکتا ہوں

توڑ دوں آہنی اصول اپنے
پھر میں سکے بھی ڈھال سکتا ہوں

جانے کیوں ہے یقیں قضا کو بھی
میں دعاؤں سے ٹال سکتا ہوں

میں تجھے جانتا ہوں پیچھے سے
تیری پگڑی اچھال سکتا ہوں

کوئی پتھر ہو کوئی قاتل ہو
سب کے آنسو نکال سکتا ہوں

میں نے پیدا نہیں کیا لیکن
تیرے ہر غم کو پال سکتا ہوں

میں جو اخترؔ ہوں ایک سورج ہوں
چاند اپنا اجال سکتا ہوں